الأحاديث

قال تعالى: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا *}. [النساء:136]

1 - (ق) عَن ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم: (بُنِيَ الْإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ) .

2 - عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلّى الله عليه وسلّم فِي سَفَرٍ، فَأَصْبَحْتُ يَوْماً قَرِيباً مِنْهُ وَنَحْنُ نَسِيرُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الجَنَّةَ، وَيُبَاعِدُنِي من النَّارِ.
قَالَ: (لَقَدْ سَألْتَنِي عَنْ عَظِيمٍ، وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللهُ عَلَيْهِ: تَعْبُدُ اللهَ وَلاَ تُشْرِكُ بِهِ شَيْئاً، وَتُقِيمُ الصَّلاَةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ البَيْتَ) .
ثُمَّ قَالَ: (أَلاَ أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الخَيْرِ: الصَّوْمُ جُنَّةٌ
[1] ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ المَاءُ النَّارَ، وَصَلاةُ الرَّجُلِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ) ، قَالَ: ثُمَّ تَلاَ {تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ}، حَتَّى بَلَغَ: {يَعْمَلُونَ} [السجدة:16، 17] .
ثُمَّ قَالَ: (أَلاَ أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الْأَمْرِ كُلِّهِ وَعَمُودِهِ وَذِرْوَةِ سَنَامِهِ) ؟ قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: (رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلاَمُ، وَعَمُودُهُ الصَّلاةُ، وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الجِهَادُ) .
ثُمَّ قَالَ: (أَلاَ أُخْبِرُكَ بِمَلاَكِ ذَلِكَ
[2]
كُلِّهِ) ؟ قُلْتُ: بَلَى يَا رسول اللهِ! فَأَخَذَ بِلِسَانِه،ِ قَالَ: (كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا) ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللهِ! وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ؟ فَقَالَ: (ثَكِلَتْكَ [3] أُمُّكَ يَا مُعَاذُ! وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ، أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ؛ إِلاَّ حَصَائِدُ ألسِنَتِهِمْ) .

4 - (ق) عن عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلّى الله عليه وسلّم يَقُولُ: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ [1] ، وَإِنَّمَا لاِمْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ [2] ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ هَاجَرَ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ) .

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔ جس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول کے لیے ہے، اور جس کی ہجرت حصول دنیا کے لیے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔

5 - (م) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ الله صلّى الله عليه وسلّم يَقُولُ: (إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ يُقْضَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَيْهِ رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ، فَأُتِيَ بِهِ، فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا. قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ، قَالَ: كَذَبْتَ! وَلكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِأَنْ يُقَالَ جَرِيءٌ؛ فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ.
وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ، فَأُتِيَ بِهِ، فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا. قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَأْتُ فِيكَ الْقُرْآنَ. قَالَ: كَذَبْتَ! وَلكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لَيُقَالَ عَالِمٌ، وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ هُوَ قَارِئٌ؛ فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّار.
وَرَجُلٌ وَسَّعَ الله عَلَيْهِ، وَأَعْطَاهُ مِنْ أصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ، فَأُتِيَ بِهِ، فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا. قَالَ: فَمَا عَملْتَ فِيهَا؟ قَالَ: مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلاَّ أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ. قَالَ: كَذَبْتَ! وَلكِنَّكَ فَعَلْتَ لِيُقَالَ هُوَ جَوَادٌ؛ فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ أُلْقِيَ فِي النَّارِ) .

ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن جس کا سب سے پہلے جس شخص کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا وہ شہید ہوگا اسے لایا جائے گا اور اسے اللہ کی نعمتیں جَتوائی جائیں گی وہ انہیں پہچان لے گا تو اللہ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کو پاکر کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا میں نے تیرے راستہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا بلکہ تو، تو اس لیے لڑتا رہا تاکہ تجھے بہادر کہا جائے سو ! تمہیں (دنیا میں) بہادر کہا گیا۔ پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دو یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ دوسرا شخص جس نے علم حاصل کیا اور اسے لوگوں کو سکھایا اور قرآن کریم پڑھا اسے لایا جائے گا اور اسے اللہ کی نعمتیں جتوائی جائیں گی وہ انہیں پہچان لے گا تو اللہ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کو پاکر کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا میں نے علم حاصل کیا پھر اسے دوسروں کو سکھایا اور تیری رضا کے لیے قرآن مجید پڑھا۔ اللہ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا تو نے علم اس لیے حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس کے لیے پڑھا تاکہ تجھے قاری کہا جائے سو تجھے ایسا (دُنیا میں) کہا گیا۔ پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ تیسرا وہ شخص ہوگا جسے اللہ نے (دنیا میں) وسعتِ رزق سے نوازا ہوگا اور اسے ہر قسم کا مال عطا کیا ہوگا اسے بھی لایا جائے گا اور اسے اللہ کی نعمتیں جَتوائی جائیں گی وہ انہیں پہچان لے گا، اللہ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کو پاکر کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا میں نے تیرے راستے میں جس میں خرچ کرنا تجھے پسند ہو تیری رضا حاصل کرنے کے لیے مال خرچ کیا۔ اللہ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا بلکہ تو نے ایسا اس لیے کیا تاکہ تجھے سخی کہا جائے پس ! تجھے (دنیا میں) ایسا کہا گیا، پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

6 - عن أَبي كَبْشَةَ الْأَنّْمَارِيِّ : أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم يَقُولُ: (ثَلاَثَةٌ أُقْسِمُ عَلَيْهِنَّ، وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيثاً فَاحْفَظُوهُ:
قَالَ: مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِنْ صَدَقَةٍ، وَلاَ ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلَمَةً فَصَبَرَ عَلَيْهَا إِلاَّ زَادَهُ اللهُ عِزّاً، وَلاَ فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلاَّ فَتَحَ اللهُ عَلَيْهِ بَابَ فَقْرٍ) أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا.
(وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيثاً فَاحْفَظُوهُ، قَالَ: إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ: عَبْدٍ رَزَقَهُ اللهُ مَالاً وَعِلْماً، فَهُوَ يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ، وَيَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ، وَيَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقّاً، فَهَذَا بِأَفْضَلِ المَنَازِلِ؛ وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللهُ عِلْماً وَلَمْ يَرْزُقْهُ مَالاً، فَهُوَ صَادِقُ النِّيَّةِ، يَقُولُ: لَوْ أَنَّ لِي مَالاً لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلاَنٍ، فَهُوَ بِنِيَّتِهِ، فَأَجْرُهُمَا سَوَاءٌ. وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللهُ مَالاً وَلَمْ يَرْزُقْهُ عِلْماً، فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ
[1] ، بِغَيْرِ عِلْمٍ، لاَ يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ، وَلاَ يَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ، وَلاَ يَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقّاً، فَهَذَا بِأَخْبَثِ المَنَازِلِ. وَعَبْدٍ لَمْ يَرْزُقْهُ اللهُ مَالاً وَلاَ عِلْماً، فَهُوَ يَقُولُ: لَوْ أَنَّ لِي مَالاً لَعَمِلْتُ فِيهِ بِعَمَلِ فُلاَنٍ، فَهُوَ بِنِيَّتِهِ، فَوِزْرُهُمَا سَوَاءٌ) .

ابو کبشہ عمرو بن سعد انماری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین باتیں ہیں، جن کی حقانیت و صداقت پر میں قسم کھا تاہوں اور میں تم سے ایک بات کہتا ہوں جسے تم یاد رکھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا؛ بندے کا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا۔ (دوسری بات یہ کہ) جس شخص پر ظلم کیا جائےاور وہ اس ظلم و زیادتی پر صبر کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جس شخص نے اپنے نفس پر سوال کا دروازہ کھولا (یعنی بلا ضرورت مانگا)، اللہ تعالیٰ اس کے لیے فقر و افلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے،-یا اسی طرح کی کچھ بات کہی- اور ایک بات میں تم سے کہتا ہوں، تم اسے یاد رکھنا۔ فرمایا: یہ دنیا بس چار آدمیوں کے لیے ہے۔ ایک تو وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال و زر بھی عطا کیا اور علم کی دولت سے بھی نوازا۔ پس وہ اپنے مال ودولت کے بارے میں اللہ سے ڈرتا ہے۔ اس کے ذریعہ اپنے قرابت داروں اور عزیزوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ کا حق ادا کرتا ہے۔ یہ شخص سب سے بلند مرتبے والا ہے۔ دوسرا وہ بندہ ہے، جسے اللہ نے علم دیا۔ مال و دولت محروم رکھا۔ مگر اس کی نیت سچی ہے۔ وہ کہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا، تو میں فلاں شخص جیسا کام کرتا۔ ایسے شخص کو اس کی نیت کے مطابق بدلہ ملے گا اوران دونوں کا اجر برابر ہوگا۔ تیسرا بندہ وہ ہے، جسے اللہ نے صرف مال دیا اور علم سے محروم رکھا۔ وہ علم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے مال کے بارے بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے مال کے سلسلے میں نہ تو اپنے رب سے ڈرتا ہے، نہ قرابت داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس میں موجود اللہ کے حق کا پاس و لحاظ رکھتا ہے۔ یہ مرتبے کے لحاظ سے سب سے گھٹیا شخص ہے۔ چوتھا شخص وہ ہے، جسے اللہ نے نہ تو مال دیا اور نہ ہی علم۔ وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں شخص کی طرح کام کرتا۔ اس کا معاملہ اس کی نیت کے مطابق ہوگا اور ان دونوں کا گناہ برابر ہوگا۔

10 - (م) عَن ابْنِ شُمَاسَةَ المَهْرِيِّ قَالَ: حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ العَاصِ وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ المَوْتِ [1] ، فَبَكَى طَوِيلاً وَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى الجِدَارِ، فَجَعَلَ ابْنُهُ يَقُولُ: يَا أَبَتَاهُ! أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم بِكَذَا؟ أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم بِكَذَا؟ قَالَ: فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: إِنَّ أَفْضَلَ مَا نُعِدُّ شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللهِ، إِنِّي قَدْ كُنْتُ عَلَى أَطْبَاقٍ ثَلاَثٍ [2] :
لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَمَا أَحَدٌ أَشَدَّ بُغْضاً لِرَسُولِ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم مِنِّي، وَلاَ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَكُونَ قَدْ اسْتَمْكَنْتُ مِنْهُ فَقَتَلْتُهُ، فَلَوْ مُتُّ عَلَى تِلْكَ الحَالِ لَكُنْتُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ.
فَلَمَّا جَعَلَ اللهُ الْإِسْلاَمَ فِي قَلْبِي، أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلّى الله عليه وسلّم، فَقُلْتُ: ابْسُطْ يَمِينَكَ فَلْأُبَايِعْكَ، فَبَسَطَ يَمِينَهُ، قَالَ: فَقَبَضْتُ يَدِي. قَالَ: (مَا لَكَ يَا عَمْرُو) ؟ قَالَ قُلْتُ: أَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ: (تَشْتَرِطُ بِمَاذَا) ؟ قُلْتُ: أَنْ يُغْفَرَ لِي، قَالَ: (أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلاَمَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟ وَأَنَّ الهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلِهَا؟ وَأَنَّ الحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ) ؟.
وَمَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ رَسُولِ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم، وَلاَ أَجَلَّ فِي عَيْنِي مِنْهُ، وَمَا كُنْتُ أُطِيقُ أَنْ أَمْلَأَ عَيْنَيَّ مِنْهُ إِجْلاَلاً لَهُ، وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ مَا أَطَقْتُ، لِأَنِّي لَمْ أَكُنْ أَمْلَأُ عَيْنَيَّ مِنْهُ، وَلَوْ مُتُّ عَلَى تِلْكَ الحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ.
ثُمَّ وَلِينَا أَشْيَاءَ مَا أَدْرِي مَا حَالِي فِيهَا، فَإِذَا أَنَا مُتُّ، فَلاَ تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلاَ نَارٌ، فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي؛ فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ
[3]
شَنّاً، ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ، وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا، حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ، وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي.

ابن شماسۃ المہری سے روایت ہے کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ قریب المرگ تھے کہ ہمارے پاس آئے، کافی دیر تک روتے رہے اور اپنا رُخ دیوار کی طرف پھیر لیا اور ان کے بیٹے کہنے لگے، ابا جان! کیا آپ کو اللہ کے رسول ﷺ نے یہ یہ خوشخبری نہیں دی؟ کیا آپ کو اللہ کے رسول ﷺ نے یہ یہ خوشخبری نہیں دی؟ پھر متوجہ ہوئے اور کہا کہ ہمارے ہاں سب سے افضل لاَ إِلَهَ إِلاَّ الله مُحَمَّد رسولُ الله کی گواہی دینا ہے۔ مجھ پر تین قسم کے حالات گزرے ہیں۔ (پہلی حالت) میرے خیال میں آپ ﷺ سے بغض رکھنے میں مجھ سے زیادہ کوئی سخت نہیں تھا، نہ ہی کسی کو مجھ سے زیادہ یہ بات پسند تھی کہ مجھے قدرت ہو تو میں آپ کو قتل کردوں۔ اگر میں اس حال میں مرتا تو میں جہنمی ہوتا۔ (دوسری حالت) جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی تو میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور کہا اپنے ہاتھ پھیلا ئیں، تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں، آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا، تو میں نے اپنا ہاتھ بند کر لیا، آپ نے فرمایا: عمرو تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا میں شرط لگانا چاہتا ہوں۔ فرمایا: کیا شرط لگانا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: شرط یہ ہے کہ اسلام لانے سے میری مغفرت کردی جائے گی، آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے تمام چیزوں کو ختم کردیتا ہے اور ہجرت پہلے کے تمام گناہوں کو ختم کردیتی ہے اور حج پہلے کے تمام گناہوں کو ختم کردیتا ہے؟“ پھر میری نظر میں آپ ﷺ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں تھا اور نہ ہی میرے لئے آپ سے کوئی بڑا تھا۔ میں آپ کے جلال کی وجہ سے آپ کو جی بھر کر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اگر مجھ سے پوچھا جاتا کہ میں آپ کے اوصاف بیان کروں تو میں بیان نہیں کرسکتا تھا، اس لئے کہ میں جی بھر کر آپ کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اگر میں اس حال میں مرتا تو مجھے امید تھی کہ جنتی ہوتا۔ (تیسری حالت) پھر کچھ اور چیزیں ہماری زندگی کا حصہ بن گئی، میں نہیں جانتا کہ ان میں میرا کیا حال ہے؟ لہذا جب میں مر جاؤں تو کوئی نوحہ کرنے والی اور آگ میرے قریب نہ لانا، جب تم مجھے دفن کر لو تو میری قبر پر پانی کے چھینٹے چھڑک دینا، پھر اتنی دیر تک میری قبر پر کھڑے ہو جانا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے، تاکہ میں تمہاری وجہ سے مانوس رہوں اور اپنے رب کے فرشتوں کے سوال کا انتظار کروں۔

11 - عَنْ أَنَسٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلى النَّبِيِّ صلّى الله عليه وسلّم فَقَالَ: يَا رَسُولُ اللهِ، مَا تَرَكْتُ حَاجَّةَ ولا دَاجَّةَ [1] إِلاَّ قَدْ أَتَيْتُ. قَالَ: (أَلَيْسَ تَشْهَدُ أَنْ لا إِلـهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللهِ؟) ثَلاثَ مراتٍ. قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: (فَإِنَّ ذَلكَ يَأْتي عَلى ذَلكَ) .

12 - (م) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم أَنَّهُ قَالَ: (وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لاَ يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَلاَ نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ، وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ؛ إِلاَّ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ) .

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اس امت کا کوئی بھی انسان جو میرے بارے میں سنے، وہ یہودی ہو یا نصرانی اور وہ اس شریعت پر ایمان نہ لائے جسے دے کر میں بھیجا گیا ہوں اور اسی حالت میں اس کی موت ہو جائے، تو وہ جہنمی ہوگا“۔

14 - (ق) عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم: (أَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي، فَأَخْبَرَنِي ـ أَوْ قَالَ: بَشَّرَنِي ـ أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لاَ يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئاً، دَخَلَ الجَنَّةَ) . قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: (وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ) .

ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ مدینے کے ایک حرے (کالے پتھر والی زمین) پر چلا جا رہا تھا کہ ہمارے سامنے احد پہاڑ آگيا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابوذر! میں نے جواب دیا: میں حاضر ہوں اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرے پاس اس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو، پھر مجھ پر تین دن گزر جائیں اور میرے پاس اس میں سے ایک دینار بھی موجود ہو، ماسوا اس شے کے جسے میں قرض کی ادائیگی کے لیے سنبھال کر رکھ لوں۔ اس کے سوا جتنا کچھ بھی ہو میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح، اس طرح اور اس طرح تقسیم کردوں۔ اپنے دائیں، بائیں اور پیچھےکی طرف اشارہ کیا۔ پھر آپ ﷺ چل دیے اور فرمایا: زیادہ مال ودولت والے ہی روز قیامت (اجر وژواب میں) بہت کم ہوں گے، ماسوا اس شخص کے جس نے مال کو اس طرح، اس طرح اور اس طرح اپنے دائیں، بائیں اور پیچھے خرچ کیا ہوگا، ليکن ایسا کرنے والے کم ہی ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اپنی اس جگہ سے تب تک نہ ہٹنا جب تک میں تمہارے پاس نہ آجاوں۔ پھر آپ ﷺ رات کے اندھیرے میں چل دیے يہاں تک کہ اوجھل ہو گئے۔ پھر میں نے ایک بلند آواز سنی۔ مجھے اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں کوئی شخص نبی ﷺ کو نقصان پہنچانے کے درپے تو نہیں ہو گیا۔ میں نے آپ ﷺ کے پاس جانے کا ارادہ کیا لیکن مجھے آپ ﷺ کا فرمان یاد آ گیا کہ میرے آنے تک اپنی جگہ سے نہ ہٹنا۔ چنانچہ میں وہاں سے نہ ہٹا یہاں تک کہ آپ ﷺ میرے پاس تشریف لے آئے۔ میں نے کہا: میں نے ایک آوا ز سنی تھی جس کی وجہ سے مجھے خوف لاحق ہو گیا تھا۔ میں نے ساری بات آپ ﷺ کو بتا دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے وہ آواز سنی تھی؟ میں نے جواب دیا:جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ جبریل علیہ السلام تھے جو میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے کہا: آپ کی امت کا جو شخص اس حال میں مر جائے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے پوچھا: اگرچہ وہ زنا کرے اور چوری کرے؟ فرمايا: اگرچہ وہ زنا اور چوری کرے۔