6 -
عن أَبي كَبْشَةَ الْأَنّْمَارِيِّ : أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم يَقُولُ: (ثَلاَثَةٌ أُقْسِمُ عَلَيْهِنَّ، وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيثاً فَاحْفَظُوهُ:
قَالَ: مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِنْ صَدَقَةٍ، وَلاَ ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلَمَةً فَصَبَرَ عَلَيْهَا إِلاَّ زَادَهُ اللهُ عِزّاً، وَلاَ فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلاَّ فَتَحَ اللهُ عَلَيْهِ بَابَ فَقْرٍ) أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا.
(وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيثاً فَاحْفَظُوهُ، قَالَ: إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ: عَبْدٍ رَزَقَهُ اللهُ مَالاً وَعِلْماً، فَهُوَ يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ، وَيَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ، وَيَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقّاً، فَهَذَا بِأَفْضَلِ المَنَازِلِ؛ وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللهُ عِلْماً وَلَمْ يَرْزُقْهُ مَالاً، فَهُوَ صَادِقُ النِّيَّةِ، يَقُولُ: لَوْ أَنَّ لِي مَالاً لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلاَنٍ، فَهُوَ بِنِيَّتِهِ، فَأَجْرُهُمَا سَوَاءٌ. وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللهُ مَالاً وَلَمْ يَرْزُقْهُ عِلْماً، فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ
[1]
، بِغَيْرِ عِلْمٍ، لاَ يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ، وَلاَ يَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ، وَلاَ يَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقّاً، فَهَذَا بِأَخْبَثِ المَنَازِلِ. وَعَبْدٍ لَمْ يَرْزُقْهُ اللهُ مَالاً وَلاَ عِلْماً، فَهُوَ يَقُولُ: لَوْ أَنَّ لِي مَالاً لَعَمِلْتُ فِيهِ بِعَمَلِ فُلاَنٍ، فَهُوَ بِنِيَّتِهِ، فَوِزْرُهُمَا سَوَاءٌ) .
ابو کبشہ عمرو بن سعد انماری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین باتیں ہیں، جن کی حقانیت و صداقت پر میں قسم کھا تاہوں اور میں تم سے ایک بات کہتا ہوں جسے تم یاد رکھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا؛ بندے کا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا۔ (دوسری بات یہ کہ) جس شخص پر ظلم کیا جائےاور وہ اس ظلم و زیادتی پر صبر کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جس شخص نے اپنے نفس پر سوال کا دروازہ کھولا (یعنی بلا ضرورت مانگا)، اللہ تعالیٰ اس کے لیے فقر و افلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے،-یا اسی طرح کی کچھ بات کہی- اور ایک بات میں تم سے کہتا ہوں، تم اسے یاد رکھنا۔ فرمایا: یہ دنیا بس چار آدمیوں کے لیے ہے۔ ایک تو وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال و زر بھی عطا کیا اور علم کی دولت سے بھی نوازا۔ پس وہ اپنے مال ودولت کے بارے میں اللہ سے ڈرتا ہے۔ اس کے ذریعہ اپنے قرابت داروں اور عزیزوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ کا حق ادا کرتا ہے۔ یہ شخص سب سے بلند مرتبے والا ہے۔ دوسرا وہ بندہ ہے، جسے اللہ نے علم دیا۔ مال و دولت محروم رکھا۔ مگر اس کی نیت سچی ہے۔ وہ کہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا، تو میں فلاں شخص جیسا کام کرتا۔ ایسے شخص کو اس کی نیت کے مطابق بدلہ ملے گا اوران دونوں کا اجر برابر ہوگا۔ تیسرا بندہ وہ ہے، جسے اللہ نے صرف مال دیا اور علم سے محروم رکھا۔ وہ علم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے مال کے بارے بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے مال کے سلسلے میں نہ تو اپنے رب سے ڈرتا ہے، نہ قرابت داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس میں موجود اللہ کے حق کا پاس و لحاظ رکھتا ہے۔ یہ مرتبے کے لحاظ سے سب سے گھٹیا شخص ہے۔ چوتھا شخص وہ ہے، جسے اللہ نے نہ تو مال دیا اور نہ ہی علم۔ وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں شخص کی طرح کام کرتا۔ اس کا معاملہ اس کی نیت کے مطابق ہوگا اور ان دونوں کا گناہ برابر ہوگا۔
قال تعالى: {وَمَا أُمِرُوا إِلاَّ لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ}. [البينة:5]
ت2325/ جه4228] [
* حسن صحيح.