ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "جس آدمی نے کسی مسلمان کو آزاد کیا، اللہ اس آزاد کردہ غلام کے ہر ایک عضو کے بدلے میں اس کے کسى ایک عضو کو آگ سے بچائے گا"۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص کسی غلام میں سے اپنے حصے کو آزاد کر دے ، تو کسی عادل شخص سے غلام کی قیمت لگوائی جائے گی اور اس کے بقیہ شرکا کے حصے کی قیمت بھی اسے ادا کرنی ہو گی، بشرطے کہ اس کے پاس اس قدر مال ہو جتنی غلام کی قیمت ہے اور اس طرح پورا غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا؛ لیکن اگر اس کے پاس مال نہ ہو، تو ایسی صورت میں بس اسی قدر غلام آزاد ہو گا، جتنا اس نے آزاد کیا“۔
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تین قسم کے افراد کے لیے دوہرا اجر ہے: ایک وہ شخص جو اہل کتاب میں سے ہے، وہ اپنے نبی پر ایمان لایا اور (پھر) محمد ﷺ پر بھی ایمان لایا۔ (دوسرا) مملوک غلام جب وہ اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے آقاؤں کا حق بھی۔ (تیسرا) وہ شخص جس کی ایک باندی ہو۔ چنانچہ اس نے اسے ادب سکھایا اور اس کی خوب اچھی تربیت کی، اور اسے علم سکھایا اور اسے خوب اچھی تعلیم سے آراستہ کیا، پھر اسے آزاد کرکے اس کے ساتھ شادی کرلی، اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے۔‘‘
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بے شک اگر کوئی غلام اپنےآقا کا خیر خواہ رہے اور اللہ کی عبادت بہترین طریقے سے کرے تو اس پر اس (غلام) کو دہرا اجر ملے گا“۔
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا غلام جو اپنے رب کی عبادت بہترین طریقے سے کرے اور اس پر اپنے آقا کا جو حق اس پر واجب ہے اسے ادا کرے ، اس کا خیر خواہ اور فرماں بردار رہے تو اس عمل پر اس(غلام) کو دہرا اجر ملے گا“۔
معرور بن سوید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان کے بدن پر بھی ایک جوڑا تھا اور ان کے غلام کے بدن پر بھی اسی قسم کا ایک جوڑا تھا۔ ہم نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ عہد رسالت میں ایک دفعہ میری ایک صاحب سے کچھ گالی گلوچ ہو گئی تھی، چنانچہ انہوں نے ان کی ماں کی طرف سے عار دلائی۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: ”بے شک تجھ میں ابھی کچھ زمانہ جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے۔ اس لیے جس کا بھی کوئی بھائی اس کے قبضہ میں ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ لیکن اگر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالو تو پھر ان کی خود مدد بھی کر دیا کرو“۔