الكِتَابُ الأوَّل: الـرقـائـق

قال تعالى: {وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ *}. [آل عمران:133]

3275 - (خ) عَنْ أَبِـي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم: (إِنَّ اللهَ قالَ [1] : مَنْ عادَى لِي وَلِيّاً [2] فَقَدْ آذَنْتُهُ [3] بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ، يَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ) .

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس شخص نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی، میرا اس کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔ اور میرا بندہ جن چیزوں سے مجھ سے قریب ہوتا ہے ان میں سب سے محبوب وہ چیزیں ہیں جو میں نے اس پر فرض قراردی ہیں۔ اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو پھر (اس کے نتیجے میں) مَیں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں، اور اگر وہ کسی چیز سے میری پناہ چاہتا ہے تو میں اسے ضرور پناہ دیتا ہوں اور کسی چیز کے کرنے میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا تردد مومن کی روح قبض کرنے پر ہوتا ہے جو موت کو ناپسند کرتا ہے اور مجھے اسے غمگین کرنا نا پسند ہوتا ہے“۔

3276 - (م) وَعَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم قَالَ: (بَادِرُوا بِالأَعْمَالِ فِتَناً كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِـحُ الرَّجُلُ مُؤْمِناً وَيُمْسِي كَافِراً، أَوْ يُمْسِي مُؤْمِناً وَيُصْبِـحُ كَافِراً، يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا) .

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ نیک اعمال کی طرف لپکو، ان فتنوں سے پہلے، جو سخت تاریک رات کی طرح ہوں گے؛ (حالت یہ ہوگی کہ) آدمی صبح کے وقت مومن ہوگا، تو شام کے وقت کافر اور شام کے وقت مؤمن ہوگا، تو صبح کے وقت کافر۔ دنیاوی ساز و سامان کے بدلے آدمی اپنا دین بیچ دے گا“۔

3278 - (م) عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم: (عَجَباً لأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ: إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ [1] شَكَرَ، فَكَانَ خَيْراً لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ [2] صَبَرَ، فَكَانَ خَيْراً لَهُ) .

صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے آسودہ حالی ملتی ہے اور اس پر وہ شکر کرتا ہے تو یہ شکر کرنا اس کے لیے باعث خیر ہو ہے اور اگر اسے کوئی تنگی لاحق ہوتی ہے اور اس پر صبر کرتا ہے تو یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے باعث خیر ہے“۔

3281 - (ق) عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِـيِّ صلّى الله عليه وسلّم قالَ: (مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللهِ أَحَبَّ اللهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللهِ كَرِهَ اللهُ لِقَاءَهُ) .

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص الله سے ملاقات کو پسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ اور جو اللہ سے ملنا ناپسند کرتا ہے تواللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے“۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا اس سے مراد موت کو ناپسند کرنا ہے؟ ہھر تو ہم سب ہی موت کوناپسند کرتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ مطلب نہیں بلکہ (وقتِ نزع) مومن کو جب اللہ کی رحمت، اس کی رضامندی اور اس کی جنت کی خوش خبری دی جاتی ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرنے لگتا ہے، تو اللہ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے۔ اور جب کافرکو (نزع کے وقت) اللہ کے عذاب اور اس کی ناراضی کی خوش خبری دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرنے لگتا ہے اور اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند نہیں کرتا“۔

3285 - (خ) عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم بِمَنْكِبِـي فَقَالَ: (كُنْ في الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ، أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ) .
وكان ابن عمر يقول: إذا أمْسَيتَ فَلا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، وإذَا أصْبَحْتَ فَلا تَنْتَظِرِ المَساءَ، وَخُذْ مِنْ صِحَتِكَ لمَرَضِكَ، ومِنْ حَيَاتِكَ لموْتِكَ.

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بيان کرتے ہيں کہ رسول الله ﷺ نے میرا کندھا پکڑ کر فرمایا: ”تم دنیا میں ایسے رہو گویا تم ایک اجنبی یا راہ گیر ہو“۔ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما فرمايا کرتے تھے: ”جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب صبح کرو تو شام کا انتظار نہ کرو۔ اور اپنی صحت وتندرستی کے زمانے ميں بيماری کے ليے اور اپنی زندگی ميں موت کے ليے تيارى كرلو“۔

3287 - (خ) عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه قـالَ: خَطَّ النَّبِـيُّ صلّى الله عليه وسلّم خَطّاً مُرَبَّعاً، وَخَـطَّ خَطّـاً فِي الْوَسَطِ خارِجـاً مِنْهُ، وَخَط خُطَطاً صِغَاراً إِلَى هَـذَا الَّذِي في الْوَسَطِ مِنْ جَانِبِهِ الَّذِي في الْوَسَطِ، وَقَـالَ: (هَـذَا الإِنْسَانُ، وَهذَا أَجَلُهُ مُحِيطٌ بِهِ ـ أَوْ: قَدْ أَحَاطَ بِهِ ـ وَهَـذَا الَّذِي هُوَ خَارِجٌ أَمَلُهُ، وَهذِهِ الخُطُطُ الصِّغَارُ: الأَعْرَاضُ، فَإِنْ أَخْطَأَهُ هَـذَا نَهَشَهُ هَـذَا، وَإِنْ أَخْطَأَهُ هَـذَا نَهَشَهُ هَـذَا) .

انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے چند خطوط (لکیریں) کھینچے اور فرمایا:" یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے، انسان اسی حالت میں رہتا ہے کہ قریب والی لکیر (موت) اس تک پہنچ جاتی ہے"۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے چوکھٹا لکیریں کھینچیں۔ پھر ان کے درمیان ایک لکیر کھینچی، جو چوکھٹے کے درمیان میں تھی۔ اس کے بعد درمیان والی لکیر کے اس حصے میں، جو چوکھٹے کے درمیان میں تھی، چھوٹی چھوٹی بہت سی لکیریں کھینچیں اور پھر فرمایا:"یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے، جو اسے گھیرے ہوئے ہے -یا یہ کہا کہ اسے گھیر رکھا ہے-اور یہ جو (بیچ کی) لکیر باہر نکلی ہوئی ہے، اس کی امید ہے اور چھوٹی چھوٹی لکیریں اس کی دنیاوی مشکلات ہیں۔ پس انسان جب ایک (مشکل) سے بچ کر نکلتا ہے، تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور دوسری سے نکلتا ہے، تو تیسری میں پھنس جاتا ہے۔