10 -
(م) عَن ابْنِ شُمَاسَةَ المَهْرِيِّ قَالَ: حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ العَاصِ وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ المَوْتِ
[1]
، فَبَكَى طَوِيلاً وَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى الجِدَارِ، فَجَعَلَ ابْنُهُ يَقُولُ: يَا أَبَتَاهُ! أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم بِكَذَا؟ أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم بِكَذَا؟ قَالَ: فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: إِنَّ أَفْضَلَ مَا نُعِدُّ شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللهِ، إِنِّي قَدْ كُنْتُ عَلَى أَطْبَاقٍ ثَلاَثٍ
[2]
:
لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَمَا أَحَدٌ أَشَدَّ بُغْضاً لِرَسُولِ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم مِنِّي، وَلاَ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَكُونَ قَدْ اسْتَمْكَنْتُ مِنْهُ فَقَتَلْتُهُ، فَلَوْ مُتُّ عَلَى تِلْكَ الحَالِ لَكُنْتُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ.
فَلَمَّا جَعَلَ اللهُ الْإِسْلاَمَ فِي قَلْبِي، أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلّى الله عليه وسلّم، فَقُلْتُ: ابْسُطْ يَمِينَكَ فَلْأُبَايِعْكَ، فَبَسَطَ يَمِينَهُ، قَالَ: فَقَبَضْتُ يَدِي. قَالَ: (مَا لَكَ يَا عَمْرُو) ؟ قَالَ قُلْتُ: أَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ: (تَشْتَرِطُ بِمَاذَا) ؟ قُلْتُ: أَنْ يُغْفَرَ لِي، قَالَ: (أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلاَمَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟ وَأَنَّ الهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلِهَا؟ وَأَنَّ الحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ) ؟.
وَمَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ رَسُولِ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم، وَلاَ أَجَلَّ فِي عَيْنِي مِنْهُ، وَمَا كُنْتُ أُطِيقُ أَنْ أَمْلَأَ عَيْنَيَّ مِنْهُ إِجْلاَلاً لَهُ، وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ مَا أَطَقْتُ، لِأَنِّي لَمْ أَكُنْ أَمْلَأُ عَيْنَيَّ مِنْهُ، وَلَوْ مُتُّ عَلَى تِلْكَ الحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ.
ثُمَّ وَلِينَا أَشْيَاءَ مَا أَدْرِي مَا حَالِي فِيهَا، فَإِذَا أَنَا مُتُّ، فَلاَ تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلاَ نَارٌ، فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي؛ فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ
[3]
شَنّاً، ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ، وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا، حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ، وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي.
ابن شماسۃ المہری سے روایت ہے کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ قریب المرگ تھے کہ ہمارے پاس آئے، کافی دیر تک روتے رہے اور اپنا رُخ دیوار کی طرف پھیر لیا اور ان کے بیٹے کہنے لگے، ابا جان! کیا آپ کو اللہ کے رسول ﷺ نے یہ یہ خوشخبری نہیں دی؟ کیا آپ کو اللہ کے رسول ﷺ نے یہ یہ خوشخبری نہیں دی؟ پھر متوجہ ہوئے اور کہا کہ ہمارے ہاں سب سے افضل لاَ إِلَهَ إِلاَّ الله مُحَمَّد رسولُ الله کی گواہی دینا ہے۔ مجھ پر تین قسم کے حالات گزرے ہیں۔ (پہلی حالت) میرے خیال میں آپ ﷺ سے بغض رکھنے میں مجھ سے زیادہ کوئی سخت نہیں تھا، نہ ہی کسی کو مجھ سے زیادہ یہ بات پسند تھی کہ مجھے قدرت ہو تو میں آپ کو قتل کردوں۔ اگر میں اس حال میں مرتا تو میں جہنمی ہوتا۔ (دوسری حالت) جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی تو میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور کہا اپنے ہاتھ پھیلا ئیں، تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں، آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا، تو میں نے اپنا ہاتھ بند کر لیا، آپ نے فرمایا: عمرو تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا میں شرط لگانا چاہتا ہوں۔ فرمایا: کیا شرط لگانا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: شرط یہ ہے کہ اسلام لانے سے میری مغفرت کردی جائے گی، آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے تمام چیزوں کو ختم کردیتا ہے اور ہجرت پہلے کے تمام گناہوں کو ختم کردیتی ہے اور حج پہلے کے تمام گناہوں کو ختم کردیتا ہے؟“ پھر میری نظر میں آپ ﷺ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں تھا اور نہ ہی میرے لئے آپ سے کوئی بڑا تھا۔ میں آپ کے جلال کی وجہ سے آپ کو جی بھر کر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اگر مجھ سے پوچھا جاتا کہ میں آپ کے اوصاف بیان کروں تو میں بیان نہیں کرسکتا تھا، اس لئے کہ میں جی بھر کر آپ کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اگر میں اس حال میں مرتا تو مجھے امید تھی کہ جنتی ہوتا۔ (تیسری حالت) پھر کچھ اور چیزیں ہماری زندگی کا حصہ بن گئی، میں نہیں جانتا کہ ان میں میرا کیا حال ہے؟ لہذا جب میں مر جاؤں تو کوئی نوحہ کرنے والی اور آگ میرے قریب نہ لانا، جب تم مجھے دفن کر لو تو میری قبر پر پانی کے چھینٹے چھڑک دینا، پھر اتنی دیر تک میری قبر پر کھڑے ہو جانا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے، تاکہ میں تمہاری وجہ سے مانوس رہوں اور اپنے رب کے فرشتوں کے سوال کا انتظار کروں۔
قال تعالى: {إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ}. [هود:114]
[م121]