الكِتَابُ الرَّابع: أَحكام المولود

2518 - (ق) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ أَعْرَابِيّاً أَتَى رَسُولَ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلاَماً أَسْوَدَ، وَإِنِّي أَنْكَرْتُهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم: (هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ) ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: (فَمَا أَلْوَانُهَا) ، قالَ: حُمْرٌ، قَالَ: (هَلْ فِيهَا مِنْ أَورَقَ [1] ) ؟ قَالَ: إِنَّ فِيهَا لَوُرْقاً، قالَ: (فَأَنَّى تُرَى ذلِكَ جَاءَهَا) ؟ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، عِرْقٌ [2] نَزَعَهَا، قَالَ: (وَلَعلَّ هَذَا عِرْقٌ نَزَعَهُ) . وَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُ في الاِنْتِفَاءِ مِنْهُ.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میری بیوی نے ایک ایسے بچے کو جنم دیا ہے جس کا رنگ کالا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں، آپ ﷺ نے پوچھا: ان کے رنگ کیا ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ ان کے رنگ سرخ ہیں۔ آپ ﷺ نے مزید پوچھا کہ کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں، ان میں خاکستری رنگ کے بھی ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ خاکستری رنگ کے اونٹ کہاں سے آ گئے؟ اس نے جواب دیا کہ کوئی رگ ہو گی جس نے انہیں کھینچ لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو پھر اُسے بھی کسی رگ ہی نے کھینچ لیا ہو گا۔

2520 - (ق) عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّهَا قَالَتْ: اخْتَصَمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وعَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ في غُلاَمٍ، فَقَالَ سَعْدٌ: هذَا يَا رَسُولَ اللهِ ابْنُ أَخِي عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُ ابْنُهُ، انْظُرْ إِلَى شَبَهِهِ. وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: هَذَا أَخِي يَا رَسُولَ اللهِ، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي مِنْ وَلِيدَتِهِ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم إِلى شَبَهِهِ فَرَأَى شَبَهاً بَيِّناً بِعُتْبَةَ، فَقَالَ: (هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الحَجَرُ، وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ بِنْتَ زَمْعَةَ) . فَلَمْ تَرَهُ سَوْدَةُ قَطُّ.

عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما کا ایک بچے کے بارے میں جھگڑا ہو گیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا بیٹا ہے۔ اس نے مجھے وصیت کی تھی کہ یہ اس کا بیٹا ہے۔ آپ خود میرے بھائی سے اس کی مشابہت دیکھ لیں۔ لیکن عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! یہ تو میرا بھائی ہے۔ میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے اور اس کی باندی کے پیٹ کا ہے۔ آپ ﷺ نے بچے کی صورت دیکھی تو صاف عتبہ سے ملتی تھی۔ لیکن آپ ﷺ نے یہی فرمایا کہ اے عبد بن زمعہ! یہ بچہ تیرے ہی ساتھ رہے گا؛ کیوںکہ بچہ اسی کا ہوتا ہے، جس کے بستر پر پیدا ہو اور زانی کے حصہ میں صرف پتھر آتے ہیں۔ اور اے سودہ ! تو اس لڑکے سے پردہ کیا کر۔ چنانچہ اس لڑکے نے پھر کبھی سودہ رضی اللہ عنہا کو نہیں دیکھا۔

2522 - (ق) عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم دَخَلَ عَلَيَّ مَسْرُوراً، تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ [1] فَقَالَ: (أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزاً [2] نَظَرَ آنِفاً [3] إِلى زَيْدِ بْنِ حارِثَةَ وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، فَقَالَ: إِنَّ هذِهِ الأَقْدَامَ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ) .

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ میرے پاس آئے اس حال میں کہ آپ بہت خوش تھے، آپ کا چہرہ دمک رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے، مجزز (قیافہ شناس) نے ابھی ابھی زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کو (چادر اوڑھ کر لیٹے ہوئے) دیکھا تو کہا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ مجزز قیافہ شناس تھا۔

2523 - (ق) عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه: أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صلّى الله عليه وسلّم يَقُولُ: (لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ ـ وَهْوَ يَعْلَمُهُ ـ؛ إِلاَّ كَفَرَ بِاللهِ. وَمَنِ ادَّعَى قَوْماً لَيْسَ لَهُ فِيهِمْ نَسَبٌ؛ فَلْيَتَبوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ) .

ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے بھی جان بوجھ کر اپنے باپ کے سوا کسی اور کے اپنا باپ ہونے کا دعوی کیا تو اس نے کفر کیا، جس شخص نے کسی ایسی شے کا دعوی کیا جو اس کے پاس نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے بعینہ جس کسی نے کسی دوسرے شخص کو کافر کہہ کر پکارا، یا یہ کہا کہ: او اللہ کے دشمن۔ اور وہ شخص حقیقت میں ایسا نہیں ہے تو اس کا یہ کہنا اس کی طرف لوٹ آتا ہے“۔

2526 - (خـ) عَنْ سُنَيْنٍ أَبِي جَمِيلَةَ ـ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ ـ: أَنَّهُ وَجَدَ مَنْبُوذاً [1] فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَال:َ فَجِئْتُ بِهِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: مَا حَمَلَكَ عَلَى أَخْذِ هَذِهِ النَّسَمَةِ؟ فَقَالَ: وَجَدْتُهَا ضَائِعَةً، فَأَخَذْتُهَا، فَقَالَ لَهُ عَرِيفُهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّهُ رَجُلٌ صَالِحٌ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَكَذَلِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: اذْهَبْ فَهُوَ حُرٌّ، وَلَكَ وَلاَؤُهُ، وَعَلَيْنَا نَفَقَتُهُ.

[خـ: الشهادات ـ باب 16/ ط1448]

* إسناده صحيح.