الكِتَابُ الرَّابع: الـحـدود

3244 - (ق) عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضي الله عنه ـ وَكَانَ شَهِدَ بَدْراً، وَهُوَ أَحَدُ النُّقَبَاءِ لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ ـ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم قَالَ ـ وَحَوْلَهُ عِصَابَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ ـ: (بَايِعُونِي عَلَى أَنْ لاَ تُشْرِكُوا بِاللهِ شَيْئاً، وَلاَ تَسْرِقُوا، وَلاَ تَزْنُوا، وَلاَ تَقْتُلُوا أَوْلاَدَكُمْ، وَلاَ تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُم وَأَرْجُلِكُمْ، وَلاَ تَعْصُوا فِي مَعْرُوفٍ. فَمنْ وَفَّى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذلِكَ شَيْئاً فَعُوقِبَ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذلِكَ شَيْئاً ثُمَّ سَتَرَهُ اللهُ فَهُوَ إِلَى اللهِ، إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ) . فَبَايَعْنَاهُ عَلَى ذلِكَ.

3246 - (ق) عَنْ عائِشَةَ رضي الله عنها: أَنَّ قُرَيْشاً أَهَمَّهُمْ شَأْنُ المَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ، فَقَالُوا: وَمَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم؟ فَقَالُوا: وَمَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلاَّ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، حِبُّ رَسُولِ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم؟ فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم: (أَتَشْفَعُ في حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللهِ) ؟ ثُمَّ قامَ فَاخْتَطَبَ، ثُمَّ قَالَ: (إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ، أَنَّهُمْ كانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقامُوا عَلَيْهِ الحَدَّ. وَايْمُ اللهِ، لَوْ أَنَّ فـاطِـمَـةَ بِـنْـتَ مُـحَـمَّـدٍ سَـرَقَـتْ لَـقَطَعْتُ يَدَهَا) .

عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ: ’’قریش کو اس مخزومی عورت کے معاملہ نے، جس نے چوری کا ارتکاب کیا تھا، فکر مند کردیا تھا، وہ (آپس میں) کہنے لگے: اس عورت کے سلسلہ میں کون رسول اللہ رسول اللہ ﷺ سے بات کرے گا؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہﷺ کے چہیتے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے سوا اور کس کو اس کی جرأت ہو سکتی ہے؟ چناں چہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے (اس سلسلہ میں) گفتگو کی تو آپ نے فرمایا: ”اسامہ! کیا تم اللہ کے حدود میں سے ایک حد کے سلسلہ میں سفارش کرتے ہو؟“، پھر آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر خطاب فرمایا: ”تم سے پہلے کے لوگوں کو بھی اسی چیز نے ہلاک کیا ہے کہ جب ان میں سے کوئی معزز آدمی چوری کر لیتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب ان میں کا کوئی کمزور و ضعیف آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کردیتے، یاد رکھو، اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد (ﷺ) بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا“۔ دوسری حدیث کے الفاظ کجھ اس طرح ہیں: ”ایک عورت سامان مانگ کر لے جایا کرتی تھی اور واپسی کے وقت اس کا انکار کردیا کرتی تھی، تو نبی ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔“

3250 - (ق) عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ـ وَهُوَ جَالِسٌ عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم ـ: إِنَّ اللهَ بَعَثَ مُحَمَّداً صلّى الله عليه وسلّم بِالْحَقِّ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، فَكَانَ مِمَّا أَنْزَلَ اللهُ آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَرَأْنَاهَا وَعَقَلْنَاهَا وَوَعَيْناهَا. رَجَمَ رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ. فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ، أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ: وَاللهِ مَا نَجِدُ آية الرَّجْمِ فِي كِتَابِ اللهِ، فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللهُ. وَالرَّجْمُ فِي كِتَابِ اللهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى إِذَا أُحْصِنَ، مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، إِذَا قَامَتِ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ الْحَبَلُ، أَوِ الاِعْتِرَافُ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا اور وہ رسول اللہ ﷺکے منبر پر تشریف فرما تھے بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی، اللہ نے آپ پر جو نازل کیا اس میں رجم کی آیت بھی تھی، ہم نے اسے پڑھا، یاد کیا اور سمجھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے بھی رجم کی سزا دی اور آپ ﷺکے بعد ہم نے بھی رجم کی سزا دی، مجھے ڈر ہے کہ لوگوں پر ایک لمبا زمانہ گزر جائے گا تو کوئی کہنے والا کہے گا: ہم اللہ کی کتاب میں رجم (کا حکم) نہیں پاتے، تو وہ لوگ ایسے فرض کو چھوڑنے سے گمراہ ہو جائیں گے جسے اللہ نے نازل کیا ہے اور بلاشبہ اللہ کی کتاب میں رجم (کا حکم) عورتوں اور مردوں میں سے ہر ایک پرجس نے زنا کیا، جب وہ شادی شدہ ہو برحق ہے۔ (یہ سزا اس وقت دی جائے گی،) جب شہادت قائم ہو جائے یا حمل ٹھہر جائے یا (زانی کی طرف سے) اعتراف ہو۔

3252 - (ق) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خالِدٍ الْجهَنِيِّ رضي الله عنهما، أَنَّهُمَا قالاَ: إِنَّ رَجُلاً مِنَ الأَعْرَابِ أَتَى رَسُولَ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَنْشُدُكَ اللهَ إِلاَّ قَضَيْتَ لِي بِكِتَابِ اللهِ، فَقَالَ الخَصْمُ الآخَرُ، وَهْوَ أَفْقَهُ مِنْهُ: نَعَمْ، فَاقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللهِ، وَائْذَنْ لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم: (قُلْ) . قالَ: إِنَّ ابْنِي كانَ عَسِيفاً [1] عَلَى هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، وَإِنِّي أُخْبِرْتُ أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ، فَافتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَوَلِيدَةٍ [2] ، فَسَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ، فَأَخْبَرُونِي: أَنَّمَا عَلَى ابْنِي جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عامٍ، وَأَنَّ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا الرَّجْمَ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم: (وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللهِ: الْوَلِيدَةُ وَالْغَنَمُ رَدٌّ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عامٍ. اغْدُ يَا أُنَيْسُ إِلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا) . قَالَ: فَغَدَا عَلَيْهَا فَاعْتَرَفَتْ، فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم، فَرُجِمَتْ.

ابو ہریرہ اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں آپ سے اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کر دیں۔ دوسرے فریق نے جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا، کہا کہ جی ہاں! کتاب اللہ کے مطابق ہی ہمارا فیصلہ فرمائیے، اور مجھے (اپنا مقدمہ پیش کرنے کی) اجازت دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پیش کر۔ اس نے بیان کرنا شروع کیا کہ میرا بیٹا ان صاحب کے یہاں مزدور تھا۔ پھر وہ ان کی بیوی کے ساتھ زنا کا ارتکاب کر بیٹھا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ (زنا کی سزا میں) میرے لڑکے کو سنگسارکر دیا جائے گا، تو میں نے اس کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک باندی دے دی۔ پھر اہل علم سے اس کے بارے میں دریافت کیا، تو پتہ چلا کہ میرے لڑکے کو (غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے زنا کی سزا میں) سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے شہر بدر کر دیا جائے گا۔ البتہ اس کی بیوی رجم کر دی جائے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تمھارا فیصلہ کتاب اللہ ہی کے مطابق کروں گا۔ باندی اور بکریاں تمھیں واپس ملیں گی اور تمھارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کیا جائے گا۔ اچھا، سنو انیس! (قبیلۂ بنو اسلم کے ایک شخص) تم اس عورت کے یہاں جاؤ۔ اگر وہ بھی (زنا کا) اقرار کر لے، تو اسے رجم کر دو“۔ چنانچہ انیس رضی اللہ عنہ اس عورت کے یہاں گئے اور اس نے اقرار بھی کر لیا۔ لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے حکم سے اس خاتون کو سنگسار کردیا گیا۔

3253 - (ق) عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما: أَنَّ الْيَهُودَ جاؤُوا إِلَى رَسُولِ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم، فَذَكَرُوا لَهُ أَنَّ رَجُلاً مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم: (ما تَجِدُونَ في التَّوْرَاةِ في شَأْنِ الرَّجْمِ) ؟ فَقَالُوا: نَفْضَحُهُمْ وَيُجْلَدُونَ، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ سَلاَمٍ: كَذَبْتُمْ، إِن فِيهَا الرَّجْمَ، فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ فَنَشَرُوهَا، فَوَضَعَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، فَقَرَأَ ما قَبْلَهَا وَما بَعْدَهَا، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ سَلاَمٍ: ارْفَعْ يَدَكَ، فَرَفَعَ يَدَهُ، فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَالُوا: صَدَقَ يَا مُحَمَّدُ، فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم فَرُجِمَا.
قَالَ عَبْدُ اللهِ: فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَـأُ
[1] عَلَى المَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ.

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہودی حاضر ہوئے اور بتایا کہ ان کے یہاں ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کا ارتکاب کیا ہے۔ آپﷺ نے ان سے پوچھا: رجم کے بارے میں تورات میں کیا حکم ہے؟ وہ بولے: یہ کہ ہم انھیں رسوا کریں اور انھیں کوڑے لگائے جائیں۔ اس پر عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ جھوٹے ہو۔ تورات میں رجم کی آیت موجود ہے۔ پھر یہودی تورات لائے اور اسے کھولا۔ لیکن رجم سے متعلق آیت کو ایک یہودی نے اپنے ہاتھ سے چھپا لیا اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی عبارت پڑھنے لگا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ذرا اپنا ہاتھ تو اٹھاؤ۔ جب اس نے ہاتھ اٹھایا، تو وہاں آیت رجم موجود تھی۔ اب وہ کہنے لگے: سچ ہے اے محمد! (ﷺ)۔ چنانچہ آپ ﷺ کے حکم سے ان دونوں کو سنگ سار کردیا گیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ عورت کو پتھر سے بچانے کے لیے اس پر جھک جھک جایا کرتا تھا۔

3254 - (م) عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ أَتَتْ نَبِـيَّ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم، وَهِيَ حُبْلَى مِنَ الزِّنَى، فَقَالَتْ: يَا نَبِـيَّ اللهِ! أَصَبْتُ حَدّاً فَأَقِمْهُ عَلَيَّ. فَدَعَا نَبِـيُّ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم وَلِيَّهَا، فَقَالَ: (أَحْسِنْ إِلَيْهَا، فَإِذَا وَضَعَتْ فَائْتِنِي بِهَا) ، فَفَعَلَ. فَأَمَرَ بِهَا نَبِـيُّ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم، فَشُكَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا [1] ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَرُجِمَتْ، ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: تُصَلِّي عَلَيْهَا؟ يَا نَبِـيَّ اللهِ! وَقَدْ زَنَتْ؟ فَقَالَ: (لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً، لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَوَسِعَتْهُمْ. وَهَلْ وَجَدْتَ تَوْبَةً أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا للهِ تَعَالَى) ؟.

ابو نجید عمران بن حصین خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جو کہ زنا کی وجہ سے حاملہ تھی۔ وہ کہنے لگی: یا رسول اللہ! میں نے ایک ایسا گناہ کیا جس پر میں حد کی سزا کی مستحق ہوتی ہوں چنانچہ اسے میرے اوپر لاگو کیجئے۔ آپ ﷺ نے اس کے ولی کو بلایا اور فرمایا: ”اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور جب یہ بچہ جن چکے تو میرے پاس لانا“۔ اس نے ایسے ہی کیا۔ آپ ﷺ کے حکم کے مطابق اس عورت کے کپڑے اس پر باندھ دیے گئے۔ پھر آپ ﷺ کےحکم سے اسے سنگسار کر دیا گیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے کہا: یا رسول اللہ! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں حالانکہ اس نے زنا کیا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس نے تو ایسی توبہ کی ہے کہ اگر مدینہ کے ستر باشندوں میں بھی تقسیم کر دی جائے تو ان کے لیے کافی ہو جائے۔ کیا تم اس سے زیادہ بھی کوئی افضل بات پاتے ہو کہ اس نے اللہ عز و جل کے لیے اپنی جان ہی قربان کر دی؟!“۔